آخری وقت اشاعت: جمعـء 9 مارچ 2012 , 14:58 GMT 19:58 PST
ایک تھے بزرگ ٹھیکیدار، سرکار کے ٹھیکوں سے جو چرا سکتے تھے چراتے تھے۔ سیمنٹ، سریا، پیٹرول، چوکیداروں کی تنخواہیں چراتے تھے، ہوا میں سڑکیں اور سکول بنا کر خوب مال بناتے تھے اور ایسے تمام ٹھیکیداروں کی طرح جب اپنی کوٹھی بنائی تو اس پر بڑے خوش خط الفاظ میں ہذا من فضل ربیّ لکھوایا۔
راقم کو اس وقت کرپشن اور بدعنوانی جیسے بھاری بھرکم الفاظ نہیں آتے تھے۔ میں نے جب ایک دفعہ انہیں پائپوں کے ٹرک فیکٹری سے نکلوا کر شہر میں بچھانے کی بجائے بازار میں بیچتے پایا تو ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ یہ تو چوری لگتی ہے۔
بزرگ ٹھیکیدار نے مجھے بڑی شفقت سے پوچھا کہ بیٹا کیا کوئی اپنی ماں سے چرا سکتا ہے؟ راقم کی سٹپٹاہٹ دیکھنے کے بعد انہوں نے مزید شفقت فرمائی اور سمجھایا کہ بیٹا حکومت ہماری ماں کی طرح ہے جو اس کا ہے وہ ہمارا ہے، تو اگر میں نے ماں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چار آنے نکال لیے تو اسے چوری سمجھنا زیادتی ہے۔
یونس حبیب نے اپنی وہیل چیئر سے سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی فہرست پڑہ کر سنائی تو مجھے لگا یہ سب لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنی والدہ ماجدہ کا پلوّ کھول کر اس میں سے چار چار آنے نکال رہے ہیں اس میں چوری ، بدعنوانی، جرم و سزا جیسے الفاظ کہاں سے آگئے۔ آخر اعلیٰ عدلیہ اس معمولی سے گھریلو تماشے پر اپنا وقت کیوں برباد کر رہی ہے؟
کیا نواز شریف کو واقعی پینتیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی؟ اتنے میں تو ایک شوگر مل کی چار دیواری بھی کھڑی نہیں ہوتی اور عابدہ حسین کو دس لاکھ رپے میں کوئی خرید کر سکتا ہے؟ اس سے زیادہ پیسے تو انکے گھوڑوں کی خوراک پر خرچ آتے ہیں۔
اور جیسا کہ معروف سیاسی تجزیہ نگار مکرمی عمیر جاوید نے فرمایا کہ عابدہ حسین کے عمدہ آداب کی تعلیم سوئٹرز لینڈ میں ہوئی ہے، جہاں غالبا اخلاقیات کی کلاس نہیں پڑہائی جاتی، ویسے بھی ان پر تنقید کرنامناسب نہیں کیونکہ وہ انگریزی بہت اچھی بولتی ہیں اور پاکستان آکر کرپشن پر کڑھنے والے گورے صحافیوں کی میزبانی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اور جماعت اسلامی جو ساٹھ سال سے پاکستان میں چوروں کے ہاتھ کٹوانے کے لیے سرگرم ہے، کیا اس کے ایمان کو پچاس لاکھ رپے میں خرید کیا جاسکتا ہے؟
آپ نے اکثر ٹی وی پر جنرل اسلم بیگ کو اپنے گھر سے شستہ اردو میں انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا ہوگا ان کے پیچھے سنگ مرمر کے قیمتی گلدان دیکھ کر یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ وہ چوری کے پیسے سے آئے ہیں۔ کیا اس ملک کو ضرب مومن کا تحفہ دینے والا سپہ سالار چوری یا چوروں کا یار ہوسکتا ہے؟
یونس حبیب نے اپنی وہیل چیئر سے سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی فہرست پڑہ کر سنائی تو مجھے لگا یہ سب لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنی والدہ ماجدہ کا پلوّ کھول کر اس میں سے چار چار آنے نکال رہے ہیں اس میں چوری ، بدعنوانی، جرم و سزا جیسے الفاظ کہاں سے آگئے۔
اور پاک فوج کے عالمی شہرت یافتہ جاسوس اسد درانی جو آج کل دفاعی مذاکروں میں شگفتگی بھکیرتے ہیں، کیا ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اصل چوروں کے ایک ٹولے کے سرخیل تھے؟
نہیں یہ سب اپنی ماں کے پرس سے اپنا اپنا حصہّ وصول کر رہے تھے۔
جس بات کی تحقیق ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ مادر وطن نے اپنے کچھ بیٹوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں کیا؟
اردو ڈائجسٹ والے الطاف حسین قریشی جو نصف صدی سے نظریہ پاکستان کی تبلیغ کر رہے ہیں اور ہماری تاریخ کو شرفّ اسلام کر رہے ہیں ان کے لیے صرف پانچ لاکھ؟
اور کیا یہ تین لاکھ پانے والے وہی مولانا صلاح الدین ہیں جو ساری عمر قلمی جہاد کرنے کے بعد شہید ہوئے؟
کیا کوئی ماں اتنی بے انصافی کرسکتی ہے کہ جام صادق جیسا شریر بچہ تو پچاس لاکھ لے اڑے اور محمد خان جونیجو جیسے معصوم بیٹے کو صرف ڈھائی لاکھ کی ریزگاری ملے۔
کاش ان سب چوروں کی ماں غلام اسحاق اگر زندہ ہوتے تو اس بات پر روشنی ڈالتے کہ آخر مادر وطن نے اپنے کچھ بچوں کے معاملے میں اتنی بخیلی سے کام کیوں لیا؟
جب غلام اسحاق خان حیات تھے اور ملک کے صدر تھے تو راقم کو ان کے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کے گاؤں والوں نے ان کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی اسے سنسر کراکے جلد آپ کی خدمت میں پیش کرں گا۔